لاہور میں راجہ کاظم بھائی کے رشتہ داروں کے ہاں پہلے فاتحہ خوانی کرنے کی وجہ سے بھیاں والا مریدکے صبح فجر کے قریب پہنچے. کاظم بھائی کے اصرار پر مسجد جانا پڑا اور پھر وہاں پر ہی فجر کی نماز پڑھی نماز کے بعد قاری صاحب نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی والی آیت سے متعلق درس دیا.جیسے ہی مسجد سے باہر نکلا تو اعلان ہوا کہ نسیم جٹ کے بھائی رشید عالم جٹ رضائے الٰہی سے انتقال کر گئے ہیں سر رشید عالم جٹ سن کا تھوڑا سا چونکا کیونکہ ہمارے لیے تو رشید عالم صاحب پچھلے بیس 20 سالوں سے رشید صاحب ” ہی تھے اور رہیں گے. دوستوں سے استفسار پر بتایا گیا کہ رشید صاحب جٹ ہی تھے اور اکثر ان کو ان کے قریبی رشتہ دار کہا کرتے تھے کہ” توں جٹ وی ایں ” کیا تم واقعی جٹ ہی ہو. لیکن جب پچھلے بیس (20) سال اور بالخصوص آخری 10 سال نظر دوڑاتا ہوں تو رشید صاحب کی بیماریوں کے خلاف جنگ جس میں سب سے پہلے اپینڈکس کا جسم کے اندر ہی پھٹ جانے سے جسم میں زہر پھیل جانا ‘ پھر ارتھراٹس کا مقابلہ کرنا اور جگر کے مرض سے لڑنا اور ان حالات کے باوجود اپنے طالب علموں کی فکر اور اپنی کلاس سے پانچ منٹ کلاس کے باہر موجود ہونا شاید ایک’ ‘جٹ’ ‘ ہی کرسکتا تھا. بارہا کہا کہ رشید صاحب کس مٹی کے بنے ہوئے ہو ….رشید صاحب کا تو نہیں پتہ تھا مگر راجو کا ضرور پتہ ہے کہ وہ راجو ہونے کے ساتھ ساتھ مولا جٹ بھی ہے…… سفر کے دوران ایک دو بار اس کا گنڈاسا بڑی زور سے چلا اور اس بار مشاہد نقوی بھی اس کی شدید زد میں آئے وہ تو اللہ کے کرم سے کاظم بھائی موجود تھے ورنہ اللہ ہی جانے راجو کو شکایت ہے ہم کچھ نہیں کرسکے…. کوئی تگ دو نہیں کی….. سوئے رہے….. سندھ میں جاکر جگر کا کچھ علاج کروایا جاتا….. رشید صاحب انتہائی اعلی اخلاق کے مالک ‘ انتہائی برداشت کرنے والے اور حلیم طبیعت کے مالک تھے…. سکول میں اکثر اوقات اپنے ساتھی اساتذہ کے ساتھ اور بالخصوص ہاوس کے معاملات پر جب کوئی نوک جھونک ہو جاتی بھی. کوئی سخت بات بھی کہا جاتا تو رشید صاحب
برداشت کر جاتے اور آخری ملاقات میں کہا بھی کہ اتنی برداشت کہاں سے لائی ہے. اب میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ رشید صاحب نے فزکس میں مجھ اور مجھ جیسے بے شمار طالب- عالموں کو کتنی بار نیوٹن لاء آف موشن، ایکویشن آف موشن ‘کونکیو اور کنویکس لینس کی مساوات’ سیمی کنڈیکٹر ‘ اینڈ اور گیٹ اور دیگر سرکٹ متعلق چیزوں’ ایکویلی بیریم ‘ انگولر مومنٹم اور ہارمونیک موشن وغیرہ وغیرہ کو کتنی بار اور کس جانفشانی سے سمجھانے کی کوشش کی تھی.لیکن کبھی بھی ان کے ماتھے پر ایک بھی شکن نہیں آئی. حتیٰ کہ ہاوس پریپ میں بھی خیبر ہاوس کی کلاس میں جا کر رشید صاحب سے فزکس پڑھتے تھے بے شمار بار مجھے فزکس کے نومریکلز کروائے ونٹر کیمپ میں رات کی پریپ کے بعد بارہ اور ایک بجے تک فزکس سمجھاتے رہتے ایک بار نویں جماعت کے بورڈ کا رزلٹ سن کر کمپیوٹر لیب کی سیڑھیوں سے بڑی خوشی سے نیچے اتر رہے تھے میں نے پوچھا رشید صاحب اتنے خوش کیوں ہیں کہا کہ خیبر ہاوس کے اچھے خاصے بچے ٹاپ ٹین میں آئے ہیں اب خیبر ہاوس نالج کپ انشاءاللہ ضرور جیتے گا میں نے جواب میں کہا کہ ان ڈے سکالز اور لائق بچوں کے لیے اتنے خوش نہ ہوں ہم نالائقوں نے ہی کام آنا ہے بحیثیت استاد تو ایک علیحدہ بات ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر ہاوس کا ہاوس پیرینٹ
ہوتے ہوئے بھی کافی طالب علموں کی زندگی کو سنوارا اور کافی دوستوں پر ان کے احسانات ہیں……سر کے ہونہار طالب علم ڈاکٹر خلیق الرحمن نے ہمیشہ خدمت کی آخر میں ڈاکٹر کو بتایا کہ عامر اور عمر کو نہیں پتہ چلنا چاہیے کہ میں ہسپتال میں داخل ہوں عمر پریشان ہوجاتا ہے…. لیکن پھر بھی ڈاکٹر نے فون کر کے بتایا کہ صحت انتہائی ناسازگار ہے……آخری ملاقات میں بتایا اپنی بیٹی کے فزکس میں تھوڑے کم نمبر آئے ہیں امپرومنٹ کے پیپر دیے ہوئے ہیں…. اللہ کی منشا دیکھیں کہ ہم جسے طالب علموں کے بھی میٹرک اور ایف سی کی فزکس میں انتہائی شاندار نمبر رشید صاحب کی وجہ سے ائے….بیٹی کا امپرومنٹ رزلٹ بھی وفات والے دن آیا …..اللہ کے کام اللہ ہی جانے رشید صاحب کے طالب علموں میں سے شاید زیادہ تر بہت زیادہ ہی کامیاب ہوگئے ہیں اور چند ہی پیچھے رہ گئے ہیں قبر کے کنارے کھڑے ان کے چند طالب علم شاید اس بات کی گواہی تھے. راجو سے جو باہمی رقابت چلتی ہے اس میں رشید صاحب سے محبتمیں سبقت بھی شامل ہے میت کو جب قبر میں اتارنے کی باری آئی تو مجتبی بٹ اور میرے مفلر کو جوڑ کر ایک چادر بنائی گئی لیکن پھر آواز آئی کہ یہ پگڑی کی چادر بہت مضبط ہے. اور شاید راجو کی یہ شکایت بھی جائز ہے کہ ہم کچھ کر نہیں سکے کیونکہ مالی نے پودے لگانے میں بہت محنت کی تھی لیکن پودے وقت پر پھل نہیں دے سکے مریدکے گاؤں میں سپرد خاک کرتے ہوئے آخری ملاقات کی بات یاد آئی کہ ” بیٹا اب میں مریدکے گاؤں ہی رہوں گا تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور پھر کالج فیرویل
کی یاد آئی کہ جس میں گلے لگ کر رویا تو کہا کہ
اوئے اسٹوپیڈ ” یہ کون سی آخری ملاقات ہے”