موسمی تغیرات کا موضوع فکری طور پر کانسپیریسی تھیوری ‘سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہوتے ہوئے ایک فیشن بن گیا ہے- پوسٹ ماڈرن ازم میں یہ ایک حقیقت ہے کہ انتہائی لبرل ازم کی ایک جو گلٹ فیلنگ
(Guilt Feeling)
۔۔۔۔۔۔احساس ندامت ہے وہ یہ ہے کہ ہماری ماضی کی حرکات ہمارے لیے ہی مسلہ ہیں – دراصل مسئلہ ہماری مستقبل کی حرکات ہی ہوتی ہیں اصل میں انسان اپنی عادات کا تابع ہوتا ہے اور اپنے ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی فکر کرتا ہے ہوتی ہیں اصل میں انسان اپنی عادات کا تابع ہوتا ہے اور اپنے ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی فکر کرتا ہے
Guilt-
احساس ندامت ‘ انسان کی مستقبل کی کی حرکات سے وابستہ ہوتی ہے – شاید انسان یہ سوچتا ہے کہ اگر وہ ماضی میں یہ کر سکتا ہے تو وہ مستقبل میں بھی یہ کچھ ہی کرے گا -انسان اپنے ماضی کے کئے ہوئے کاموں کو عادت میں بدل لیتا ہے اور وہ یہ عادات تبدیل نہیں کر سکتا اور -اس کو عادات تبدیل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے موسمی تغیرات کے مسئلے پر جہاں لبرل دنیا ندامت کی مخاصمت میں پھنسی ہوئی ہے وہاں پر پاکستان اور اس کی طرح کے غیر ترقی یافتہ ممالک جو کہ فیشن کی پیروی کرتے ہیں -اس مسلے کو اپنی ہی ضرورت ‘سوچ اور آسانی کے مطابق ڈھالتے ہوئے نظر آتے ہیں – مثال کے طور پر پاکستان میں 1992 کے سیلاب کے دوران شاید موسمی تغیرات کا زکر نہ ہوا ہو…. اسی طرح 2010 کے سیلاب کے دوران بھی موسمی تغیرات وغیرہ وغیرہ کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آیا تھا لیکن اس بار کے سیلاب میں موسمی تغیرات وغیرہ وغیرہ کی بے حد گردانیں سننے کو ملی….. لاس اور ڈیمج کی اصطلاح استعمال ہوئی کہ ترقی پذیر ممالک تباہ کاریوں کے ذمہ دار ہیں اور وہ غریب ممالک کے ان نقصانات کا مداوا کریں اور پاکستان نے ترقی یافتہ ممالک سے سے امداد کا تقاضہ کیا کہ جو اب کی بار سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئیں ہیں ان کے لیے وہ اس کا مداوا کریں اور پاکستان کی امداد کریں-حالانکہ کہ پاکستان میں موسمی تغیرات پے اگر کام کیا جائے تو بہت سے ایسے عوامل ہیں جو توجہ طلب ہیں مثال کے طور پر پر پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل توجہ متقاضی ہے – پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ اور بالخصوص انٹرسٹی پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے – جیسا کہ میٹرو بس ملک کے اہم شہروں میں چلائی جارہی ہی ہے یہ بس سروس ملک کے ہر شہر میں چلنی چاہیے- اسی طرح ٹرکوں اور ڈیزل انجن کے استعمال کے بجائے ٹرینوں کے ذریعے ساز و سامان کی ترسیل ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ مزید – بہت سے ایسے عوامل اور شعبے ہیں جن میں اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو موسمی تغیرات کو کم کرنے کے لیے مفید ترین اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں ہے سرسبز معاشیات کے لیے لازمی ہے کہ بائیو پولیمر’ بائیو پلاسٹک اور بائیو فیول کے ساتھ ساتھ بائیو احساسات کو بھی پیدا کیا جاۓ. مشینی دور میں احساسات کی پائیداری کا فقدان نظر آتا ہے – لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اورگینک فوڈ اور اورگینک پھل’ سبزیوں کے ساتھ ساتھ اورگینک سوچ فکر اور خیالات کو بھی پیدا کیا جائے’ اور اورگینک خیالات اور افکار کو بھی اہمیت دی جائے. یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کاسمیٹک طریقہ کار سے موسمی تغیرات کو نہیں روکا جا سکتا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک غیر پائیدار اور
ڈسپوزیبل تہذیب ایک پائیدار مستقبل بنا سکے
لہذا کاسمیٹک سرجری کی طرح غیر پائیدار حل کل کے بجائے جیسا کہ پیپر کے اسٹرا استعمال کرنے اور وغیرہ وغیرہ کے بجائے انسان اپنی عادات کو انسانی تقاضوں کے مطابق ڈھالے اپنی عادات کی تبدیلی کے متعلق سوچے اور ان کو تبدیل کرے تاکہ موسمی تغیرات سے حقیقی طور پر بچا جا سکے
۔ سلاو ژیژک.
ژاں ژاک روسو