لیکن اپنے معاشرے کے معاشی مسائل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ” کسب” اور اس کو انسانی ذات سے منسوب کرنے کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں- سیاست دانوں ‘وزیر خزانہ اور سیاسی جماعتوں سے معاشی بحران کے خاتمے کا حل تلاش کرنا ایک فضول کاوش ہے-
جیسا کہ دور جدید میں موجودہ انسانی شکل کو چارلز ڈارون کے افکار کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ‘ نفسیاتی مسائل کو فرائڈ کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے – اس طرح معاشرتی تعلق داری سے جنم لینے والے معاشی مسائل کو مارکس کے افکار کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے – مارکس کے افکار کو سمجھنے کے بغیر معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے جو بھی طریقہ کار اپناے جائیں گے وہ حقائق کے منافی اور ریڈی میڈ ہی ہوں گے-
مارکس کے مطابق کھڈی کا پاور لوم میں تبدیل ہونا’ چھاپہ خانوں کی افزائش وغیرہ وغیرہ نے ان کارخانوں کے مزدوروں میں ایک متنفر پن کو جنم دیا – اور اس وجہ سے ان کے کام میں اپنائیت اور ختم ہوجاتی ہے… وہ اپنے کام سے بیزار ہو جاتے ہیں – وہ اپنے کام کو اپنا تخلیقی کام نہیں بلکہ اپنے آقا ( سرمایہ دار) کا مرہونِ منت سمجھتے ہیں –
” کمیونزم اور سوشلزم کوئی عشق نہیں لیکن یہ وہ ہتھیار ہیں جس سے ہم. دشمن پر حملہ کریں گے”
ماو زے تنگ
مارکس کے افکار اور فلسفے کو شاید اس بنیاد پر رد کیا جا سکتا ہے کہ ‘ انسان وہ جانور ہے جو ایک ہتھیار کو ہمیشہ بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے – انسان کی جبلت ہی خودکار ہتھیار بنانا ہے ‘ آٹومیشن ہی ہے –
لیکن معاشی مسائل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نفسیاتی مسائل اور پہلوؤں کو سمجھا جائے – معاشرتی سپر سٹکیچر کو سمجھنے کے لیے معاشرتی اعلیٰ کلاس کے نظریات کو ان کی حرکات میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے – اور وہ اپنی ان حرکات کو کیسے معاشرتی غریب کلاس پر اثر انداز کرنے میں فلموں ‘ گانوں اور اشتہارات کی مدد لیتے ہیں-
لیکن معاشی مسائل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ نفسیاتی مسائل اور پہلوؤں کو سمجھا جائے – معاشرتی سپر سٹکیچر کو سمجھنے کے لیے معاشرتی اعلیٰ کلاس کے نظریات کو ان کی حرکات میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے – اور وہ اپنی ان حرکات کو کیسے معاشرتی غریب کلاس پر اثر انداز کرنے میں فلموں ‘ گانوں اور اشتہارات کی مدد لیتے ہیں-
دور جدید میں ان مسائل کے حل کے لیے سلو و ذیذک کے ذریعے ہیگل ‘ مارکس’ فرائیڈ اور لاکان ‘ کو سمجھنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آضافی ویلیو جس کو لاکان نے نفسیات میں جوئیسانس (Jouissance) Surplus Enjoyment
(Jouissance) سے تشبیہ دی ہے- جس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے لیے تسکین ہمیشہ نارمل سے “زیادہ” یا عام الفاظ میں (حد سے زیادہ تجاوز) میں مفقود (چھپی ہوئی ہے ) ہے-
لہٰذا جو حاکم یا آقا (سرمایہ دار) کا پرافٹ یا حد سے زیادہ تجاوز ہے وہ ہمیشہ سے رہے گا – دنیا میں پوری انسانیت میں شاید ایک فیصد ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس سب کو سمجھتے ہوئے بھی بغیر پرافٹ کے کوئی کام سرانجام دیں گے- کیونکہ موجودہ دور میں کوئی بھی کام بغیر پرافٹ نہیں ہوسکتا-لیکن اپنے معاشرے کے معاشی مسائل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ” کسب” اور اس کو انسانی ذات سے منسوب کرنے کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں- سیاست دانوں ‘وزیر خزانہ اور سیاسی جماعتوں سے معاشی بحران کے خاتمے کا حل تلاش کرنا ایک فضول کاوش ہے-اگر آپ کے معاشرے میں کوئی انسانی تخلیقی “کام “ہی نہیں کرے گا اور معاشرے میں عزت اگر ہنر مند افراد کے بجائے’ بابو کلریکل کام کرنے والوں کی ہوگی – اور اگر “کسب” کام کرنے کو ذات پات سے ہی منسوب کیا جائے گا تو نہ ہی آپ کے معاشرے میں نئی مشین کی افزائش ہوگی اور جن ممالک میں مشینوں کی افزائش ہو گی آپ ان کے مقروض اور محکوم رہیں گے-
باقی آپ کی مرضی ہے آپ اچھے اور مخلص انسانوں کو نیچ یا کمی کمین سمجھیں-