انیلیسس آف کریٹویٹی ان سانگز
بچپن سے ہی گانوں سے محبت رہی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تعلق بھی گانا گانے والی برادری سے ہے- بچپن میں کزنز کے مطابق گانا سنا کر پیسے لینا میرا کام تھا- لہذا بچپن کی محبت کو دل سے ابھی تک جدا نہیں کیا – گانوں میں جنسیت ‘ تمباکو نوشی’ چرس شراب اور کلب لائف وغیرہ وغیرہ کہ علاوہ جو چیز نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے اور جو ہر کلچر اور ہر زبان کے گانے میں دیکھی جا سکتی ہے وہ کار یعنی گاڑی کی موجودگی ہے – گانوں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ کار کے حامل لوگ ہشاش بشاش زندگی گزارتے ہیں- یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ کار کی تیز رفتاری کے ساتھ طبیعت کو اچھا محسوس کیا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ – تیز رفتار دور اور تیز رفتار احساسات کی عکاسی شاید کار کی تیز رفتاری سے ہی کی جاتی ہے -موجودہ انسانی دور میں انسانی شخصیت ‘ معاملات اور خواہشات میں فقدان lackکو بھی اسی کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – اشتہارات کا جا ئزہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان میں پہلے انسانی زندگی میں فقدان کی تشہیر کی جاتی ہے اور پھر یہ دکھایا جاتا ہے کہ اگر مشتہر چیز آپ کے پاس ہو گی تو کیسے آپ کی بے چینی ختم ہو جائے گی – جیسا کہ موجودہ دور میں مخالف جنس کے مل ملاپ میں وہ دشواریاں حائل نہیں رہی جو پہلے زمانے میں ہوتی تھیں…. لہذا گانوں میں یاس ‘ ناامیدی اور ملنے کی وہ لگن اور جستجو کی وہ عکا سی باقی نہیں رہی جو پرانے گانوں کی شاعری میں ہوتی تھی ۔ لہذا سرمایہ درانہ معاشرے میں انسانی جستجو کو مٹیریل سے جوڑنے کے لیے غلط نظریات یا جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے- مارکس کموڈٹٹی فیٹیش ازم کی تھیوری میں یہ بات کرتا ہے کہ معاشرے کے سرمایہ دار ایک عام سی چیز کی ایسی کہانی گھڑ لیتے ہیں اور اس کی ایسی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ چیز اپنی اصلی افادیت کے بجائے دوسرے عوامل کی منظر کشی یا اس کے دیگر پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اور لوگوں کو کمتر محسوس کروا کہ اس چیز کی خریداری پر مجبور کرتی ہے۔ ایک غریب ملک کے وزیروں کے پاس مہنگی گاڑیاں۔۔۔۔۔۔۔اور لوگ بھی اسی کی عزت کرتے ہیں کہ جس کے پاس۔۔۔۔۔۔۔لہذا کار ایک ٹونا’ ٹوٹکہ یا تعویض (فیٹیش ) کی شکل اختیار کر گیا ہے- لیکن اس مہنگائی کے دور میں لومبرگینی چلانے سے پہلے لانگ ڈرائیو پر چلنے سے پہل گڈی میں منگاں داں اے تے تیل تو پاوا دے-