اقبال اور فلسفہ
فلسفے کی دنیا میں کانٹینینٹل تجربہ پرستی کی وجہ سے ہی شاید یورپی حیات نو کا عروج ہوا جس کے بانی لیبینز’ ڈیکارٹ اسپینوزا’ لاک اور ہیوم وغیرہ وغیرہ ہیں. اقبال کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے فلسفے کی دنیا میں جرمن ائیڈیلزم جو کہ بنیادی طور پر کانٹ ‘فختے ‘ ہیگل اور شیلنگ کے نظریات پر مشتمل ہے کو سمجھنا لازمی ہے. جرمن ائیڈیلزم کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ایک شے یا چیز اپنے وجود میں تضادات کی حامل ہوتی ہے اور وہی چیز یا شے اپنا وجود رکھتی ہے جو انسانی شعور میں ہو.اس کے علاوہ لوجیکل پوزیٹو ازم کے فلسفے پر بھی اقبال انحصار کرتے ہیں –مارکس کے انقلابی فلسفے کو بھی اقبال ایک دو مقام پر سراہتے ہیں- کارل مارکس کا فلسفہ مادیت جرمن آئیڈیلزم کی تنقید پر مشتمل ہے- مارکس نے اپنے استاد ہیگل پر تنقید کرتے ہوئے یہ نکتہ دیا تھا کہ انسانی شعور مادیت سے جنم لیتا ہے نہ کہ شعور مادیت کو جنم دیتا ہے -لینن نے مارکس کے فلسفے کے بل بوتے پر روس میں انقلاب برپا کیا اور ماؤ نے بھی اس کا سہارا لیتے ہوئے چین کو نیا چین بنایا – اس کے ساتھ ساتھ نطشے اور شوپن ہاور کے نظریات بھی اقبال کے فلسفے میں موجود ہیں – لیکن انسانی زندگی میں انیگری ینگ مین جب بڑھاپے میں جاتا ہے تو وہ خرد اور عقل کی بات کرتا ہے- لیکن انسانوں میں بیشتر انسان قلندرانہ Stoic طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور وہ ‘ محبت’ جذبات اور احساسات کو خرد اور عقل پر ترجیح دیتے ہیں-
اور اقبال کو بھی قلندر لاہوری کہا جاتا ہے -شاعروں کی دنیا میں گوئٹے کی چھاپ بھی اقبال پر نمایاں ہے… اسی طرح اقبال نےاپنی شاعری میں آفاقی عشق اور محبت کی پزیرائی کی ہے- اقبال کی شاعری کی بنیاد فلسفیانہ ہےنہ کہ انسانی تعلقات ‘معاملات’ جذبات اور عاشقی معشوقی پر منحصر ہے جیسے کہ بیشتر شعراء کرتےہیں- یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنے آپ کو مولانا روم کا مرید کہتے ہیں کیونکہ ان کی شاعری میں احساسات کی آفاقیت پائی جاتی ہے – اقبال کی شاعری میں فلسفیانہ چھاپ نمایاں ہے اور اقبال کی شاعری انفرادیت سے لے کر اجتماعیت کے اصولوں پر نمایاں راہنمائی فراہم کرتی ہے اور وہ خودی سے لے کر ملت کے بنانے کے لیے رہنما اصول مہیا کرتے ہیں. اقبال کی توجہ مسلما نوں کی زبوں حالی پر زیادہ رہی اور اس کی وجہ وہ مسلما نوں کی رسول اللہ کی حقیقی تعلیمات سے دوری بتاتے ہیں –اور ساتھ اس کا حل تجویز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو ابتدائی مسلمانوں جیسا جذبہ چاہئے -لیکن اقبال کا ابتدائی مسلم مفکرین سینا ‘ فارابی’ رُشد وغیرہ وغیرہ پر بے جا تنقید اس لیے قابلِ قبول نہیں کیونکہ انسانی زندگی میں انسانی سوچ کی ترقی بھی کڑی کی شکل یا سیڑھی کی شکل میں آگے بڑھتی ہے اگر ابتدائی مسلم مفکرین نے یونانی فلسفے کو ریفائن کیا تھا تو اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یورپی مفکروں نے مسلم مفکرین سے ہی مدد حاصل کی اور اپنی فکر کو وسیع کیا -باقی حقیقت اپنے آپ میں ہمیشہ نامکمل ہے –اور بقول اقبال کائنات ابھی ناتمام ہے شایدکہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ