“تہذیب ہمیشہ ایک نا امید دوڑ ہوتی ہے ان غلطیوں کا ادراک کرنے کے لیے جو تہذیب نے خود پیدا کی ہوں ” ژاں ژاک روسو
جیسا کہ کوپ 28 (سربراہی ماحولیاتی کانفرس) کا انعقاد دبئی میں ہوا- اس میں کافی اہداف کے حصول کے لیے طریقہ کار وضع کیے گئے اور تہیہ کیا گیا کہ فوسل فیول کا استعمال بلکل ترک کردیا جائے گا-مزید یہ کہ ترقی یافتہ ممالک کی ماحولیات کے تحفظ کے لیے انوسمنٹ بھی بڑھتی جا رہی ہے-ترقی یافتہ ممالک کے قدامت پرست لیڈر اور سیاست دان ماحولیات کے تحفظ کو ایک مغالطہ کہتے ہیں اور بجائے ماحول کے تحفظ کے لیے پیسے خرچ کرنے کے بجائے اپنے ملک کی معیشت اکانومی بہتر بنانے کے لیے زور دیتے ہیں لیکن موجودہ دور میں سائنس کی دنیا میں تین بڑے شعبوں میں (ریسرچ) تحقیق ہو رہی ہے- ایک میڈیکل سائنس میں بیماریوں کے روک تھام کے لیے- دوسرا کمپیوٹر کی دنیا میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور تیسرا ماحول کو محفوظ کرنے کے لیے نئے طریقے اور آلات بنانے کے لیے-لیکن ہمارے جیسے ممالک کے مسائل ابھی تک روٹی کپڑا اور مکان کے ہیں- لیکن ماحولیاتی آلودگی کا سب سے زیادہ نقصان بھی ہمارے جیسے ممالک کو ہوا ہے- جیسا کہ پنجاب اور دہلی میں سموگ جو کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے روز مرہ کے معمولات زندگی کو روک رہی ہے-اس کے علاوہ حال ہی میں دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں بھی بیشتر شھر ہندوستان اور پاکستان کے ہی شامل ہیں-
آلودگی میں پہلے دس ہندوستان اور پاکستان کے شہروں کی اکژیت شاید اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ جدیدیت کے مغربی اصول شاید ہمارے خطے کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے-
لاس اور ڈیمیج فنڈ کا قیام 27 کانفرنس میں ہی ہوگیا تھا اور ہمارے ملک نے اس کانفرنس میں بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس فنڈ کی مد میں ہماری کی مدد کریں ماحولیات کی تباہی پر فلسفیانہ گفتگو کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیشتر مسائل ایسے بھی ہیں جن کو ہم نے خود حل کرنا ہےجیسا کہ آبادی کے کنڑول کے مسائل’ حیاتیاتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کو کم کرنا’ اپنی خوراک خود پیدا کرنا اور ماحولیات کو محفوظ بنانے کے لیے پراجیکٹس کو فنڈ کرنا اور مکمل کرنا وغیرہ وغیرہ-