حقیقی آزادی سے پہلے غیر حقیقی آزادی لازمی ہے-بر صغیر پاک وہند میں ( ہندوستان میں اس تصور میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے ) کہ انسانی پیشے ‘ کام اور کسب وغیرہ کو انسانی ذات سے منسوب کردیا جاتا ہے – اس تصور کے فلسفے اور معاشرتی نفسیات میں جانے کے بجائے کچھ عوامل ایسے ہیں کہ ان پر نظرثانی ضروری ہے.کسی بھی انسانی کام کو اس کی نسل سے منسوب کر دینا ہی شاید معاشرے کی پستی اور معاشرتی ناانصاف کا سبب ہے۔۔۔ جیسے کہ مغرب میں ہر مشقت والے کام کو گھنٹوں میں تقسیم کرکے اسکی اجرت مختص کی ہوئی ہے۔۔۔ علاوہ ازیں یہاں پر کوئی بھی کام حقیر تصور نہیں کیا جاتا- کچھ ہم خیال دوستوں کا اس بات پراتفاق بھی ہے کہ ان عوامل کی درستگی انتہائی لازمی ہے۔۔۔۔اقبال نے کہیں پر لکھا ہے کہ ہے ۔۔۔۔”دل کے لیے ہے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیئے ہیں آلات اس بات پر اتفاق کیاجاسکتا ہےکہ اگر مشین انسانی زندگی میں آسانی لےکر آتی ہے تو اس کے استعمال میں کوئی عار نہیں برتنی چائیے . یہاں پر لینین اور مارکسی فلسفے کی سمجھ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔اور نہ ہی وضاحت درکار ہے کہ کس طرح مشینوں کے مالک سرمایہ دار استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ان تمام مشکل اور لادینی فلسفوں کو وقتی طور پر پش پشت ڈال کر کے ایک پہلو کی طرف نظر دوڑائی گئی ہے کہ۔۔۔۔مان لیا جائے کہ ملک کے سیاستدان’ اشرافیہ اسٹبلشمنٹ اور بیوروکریسی بد عنوانی میں مبتلا ہیں اور سب برائیوں کی جڑ بھی کسی حد تک یہی مسلہ ۔۔۔۔۔۔ لیکن میرا سو ال ہے کہ ملک کی پڑھی لکھی ہوئی عوام اور بالخصوص ملک کے سائنسدان ‘میڈیکل ڈاکٹرز اور دیگر قابل لوگ سے تعلق رکھنے والے لوگ جب معرب کی طرف آتے ہیں اور بالخصوص ان میں سے جو ملک کے اخراجات پر آتے ہیں.تو یہ لوگ واپسی پر جہاں کر اپنے ملک میں یہاں کے سائنسی طور طریقے کیوں نہیں نافذ کرتے۔۔۔۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ادراے کے سربراہ کے ساتھ ساتھ بزرگ ترین پروفیسروں کے پاس بھی کوئی نائب قاصد وغیرہ نہیں موجود ہوتا- اور تقریباً ادارے کا ہر فرد کام خود اپنوں ہاتھوں سے سر انجام دے رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔کوئی ایسے جگہیں مختص نہیں ہیں کہ جہاں پر کافی’ چائے اور کھانا کھایا جائے اور اداروں میں کچن باورچی نائب قاصد ہو جو صاحب لوگوں کو یہ چیز پیش کرے۔۔۔۔ دوستوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اول تو گندگی اور گرد اور دھول وغیرہ ہوتی ہی نہیں اگر ہو بھی تو دفتر میں بیٹھا شخص خودہی صافی سر انجام دے دیتا ہے.اول تو بڑے بڑے گیٹ نسب ہی نہیں کیے گیے چوکیداروں کی کیا ضرورت ۔۔۔۔ سمارٹ سسٹم اور کارڈز وغیرہ کے استعمال سے دروازے خود کھل اور بند ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔اور شہروں میں بھی پارکینگ اسی طرح ہو جاتی ہے ۔۔۔۔مختصراً کہ ایک انسان کی دوسرے انسان پر محکومی اور انحصار کو اور آقایت کو حد درجے تک کم کیا گیا ہے. موسمی تغیرات’ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ‘ فیول سیل جدید بیٹری ‘ کاربن ڈائ آکسائڈ ‘ ویکسین نئے اعضاء کی پیدائش کے ساتھ ساتھ عام انسان کی روزمرہ زندگی کو آسان بنانے کی طرف بھی توجہ دی جائے اور دوسرے انسان کو حد درجے سے تک محکومی سے بچایا جائے ۔۔۔۔۔